Wednesday, December 28, 2022

کبھی آو تو سہی بہاولپور دیکھو تو زرا کیسا ہے میرا چولستانتمہیں کس نے کہا مری جاو،مری میں تو بندر رہتے ہیں۔بلند پہاڑ ہیں۔آنکھیں ہیں کہ پہاڑ کی دوسری جانب دیکھ ہی نہیں پاتیں۔جس کی وجہ سے انسان تنگ نظر ہو جاتا ہے۔کبھی آو نہ میرے چولستان تیری آنکھوں کی پیاس بجھاوں تیری نظر کو وسعت دوں۔کبھی آو نا دیکھو تو ذرا میرے چولستان میں ہوٹل نہیں ہیں کیونکہ یہاں مہمانوں کو پیسے لے کر کھلایا نہیں جاتا۔آ تو سہی دیکھ تو ذرا میرے چولستان جیسی جگہ دنیا میں کہاں۔جہاں جنگل بھی ہو اور نہر بھی،ویرانہ بھی ہو اور ایشیاء کا بڑا پارک بھی،آبادی بھی ہو اور جنگلی حیات بھی۔ایک شب میرے صحرا میں گزار کر تو دیکھ،ایک رات یہاں خیمہ لگا کر تو دیکھ،اس کی ٹھنڈی ریت و خاموشی تجھے جوانی کی بہاریں پھر سے لٹا نہ دے تو کہنا۔جس موسم میں تم دمے کے مریضوں کی طرح سانس لینا مشکل ہو جاتا ہے کبھی آو اس موسم میں، رات کے پچھلے پہر دکھن کی ہوا تمہیں ماں کی طرح سلا نہ دے تو کہنا۔کبھی آو تو سہی تمہیں شام کے وقت جانوروں کے گلے میں بندھی ٹلیوں کی سروں اور بانسریوں کی آوازوں سے دنیا کے ہر غم سے بے غم نہ کر دوں تو کہنا۔آ تجھے صحرا کی چاندنی کا پرکیف منظر اور صحرا کی وسعت دکھا کر،تیری تنگ نظری کو وسعت میں بدلوں۔انتخاب:

No comments:

Post a Comment